پاکستان ٹوٹنے کا خدشہ بلوچ قومی تحریک کی کامیابی کا اظہار ہے – دلمراد بلوچ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل دلمراد بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نیازی کا پاکستان کے تین ٹکڑے اور بلوچستان کے الگ ہونے کا خدشہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ یہ ملک اپنی عمر پوری کرچکا ہے۔ ساتھ ہی یہ بیان قومی تحریک آزادی کی کامیابی کی علامت اور اس بات کا غماز ہے کہ مظلوم اور محکوم قوموں کی سرزمین پر قابض ملک اپنے دن گن چکا ہے۔ اب یہ ریاست بلوچ، سندھی سمیت دیگر محکوم قوموں کی سرزمین پر فوجی طاقت کے بل بوتے اور مغرب کے بیساکیوں کے سہارے قبضہ مزید برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ دلمراد بلوچ نے کہا پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی زبان سے پاکستان کے ٹوٹنے کا خدشہ ظاہرکرنا بلوچ قومی تحریک کی کامیابی کا واضح اظہار ہے۔ اس قومی تحریک کو کچلنے کے لیے پاکستان نے نسل کشی، اجتماعی سزا اور جنگی جرائم کے نئے ریکارڈ قائم کیے گئے ہیں لیکن ان تمام ظلم و بربریت کے باوجود بلوچ قوم اپنے قومی موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ پاکستانی سفاکیت کے مقابلے میں بلوچ قوم قربانی کی ایسی تاریخ رقم کررہی ہے جس کی جدید قوم دوستانہ تحریکوں میں مثال ملنی مشکل ہے۔ بی این ایم کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں رائے بھی ہماری دو دہائیوں سے جاری موقف کی تصدیق ہے۔ بلوچستان میں غیر محفوظ ایٹمی تجربوں نے جہاں بلوچ سرزمین میں تابکاری سے کئی بیماریاں جنم دیں وہیں یہ ہتھیار عالمی امن کے لیے بھی خطرے کی علامت بن گئے ہیں۔ ہم مسلسل اس امر کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار کسی بھی وقت مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ ان انتہا پسندوں کی ایک اکثریت خود پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں میں موجود ہے۔ آج پاکستان کے سابق وزیر اعظم کے خدشات اور اعترافی بیان کے بعد دنیا کو چاہیے کہ کسی تباہی سے پہلے پاکستان کو قابو کرکے یہاں بسنے والی محکوم قوموں کی مدد کی جائے۔ انہوں نے کہا ایک جانب بلوچ قومی تحریک نے بلوچستان میں پاکستانی قبضہ گیریت کی بنیادیں ہلا دی ہیں تو دوسری جانب پاکستان کے اندرونی تضادات مختلف صورتوں میں سامنے آ رہے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک سے نمٹنے کے لیے فوج، عدلیہ اور سیاستدانوں میں واضح اختلاف ہے۔ پاکستان کے دانشور اور تھنک ٹینک بھی بلوچ مسئلہ کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے میں پوری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ وہ اپنی تحریروں میں مسلسل مختلف آراء سامنے لاکر اس کا ثبوت پیش کرچکے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک کے نیتجے میں معاشی طورپر قابض ریاست مکمل طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ بطور ریاست پاکستان ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان صرف فوجی قوت پر انحصار کرتا چلا آیا ہے لیکن اب آثارنظر آرہے ہیں کہ یہ تضادات فوج میں بھی سرایت کرچکے ہیں۔ سیکریٹری جنرل نے کہا کہ سابق وزیراعظم کا بیان واضح کرتا ہے کہ پاکستان بطور ریاست ناکام ہوچکی ہے۔ اس ناکامی میں بہت بڑا عنصر بلوچ قومی تحریک آزادی ہے۔ اس کے لیے بلوچ قوم قربانی اور سرفروشی کی نئی داستانیں رقم کررہی ہے۔ بلوچ قوم کے خلاف جنگی جرائم کا یہ عالم ہے کہ دنیا کو دکھانے کے لیے جبری لاپتہ افراد کے بارے میں اسمبلی میں ایک بل لایا گیا مگر وہ بھی جبری لاپتہ ہوگیا۔ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ پاکستانی فوج بلوچ قوم کو مٹانے کا تہیہ کر چکی ہے لیکن بلوچ نسل کشی پاکستان کی تباہی کا اس انداز میں سبب بن گیا ہے کہ اس کا اعتراف ملک کے سابق وزیراعظم کر رہے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post