بلوچستان کی روایات اور عدل کی ضرورت تحریر: ماہ نور شاہ (تربت کیچ)

 


بلوچستان جیسی عظیم سرزمین جہاں بہادری، وفاداری اور عزت داری کو بنیادی اقدار مانا جاتا ہے وہاں بعض اوقات انہی اقدار کو ایک مخصوص طبقہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتا ہے۔

غیرت جو دراصل کردار، دیانت، اور اخلاق کا نام ہے اسے اکثر عورت پر جبر کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا غیرت کا قانون صرف عورتوں پر لاگو ہوتا ہے؟ کیا مرد اس دائرے سے مکمل آزاد ہیں؟ اگر نہیں، تو انصاف کہاں ہے؟

انصاف کا مطلب ہے برابری، برابری موقع کی، برابری سوچ کی، اور برابری سزا و جزا کی۔ اگر ایک لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرے اور اسے جرم تصور کیا جائے، تو پھر ہر اس مرد کو بھی جوابدہ ہونا چاہیے جو عورت کی مرضی کے خلاف اس کی زندگی میں مداخلت کرے۔

مگر یہاں انصاف کا ترازو یک طرفہ جھک چکا ہے  عورت اگر پسند کا اظہار کرے تو اسے "کالی" قرار دیا جاتا ہے مرد اگر زنا کرے یا عورت پر ظلم ڈھائے، تو اسے "مردانہ فخر" قرار دیا جاتا ہے۔ یہ وہ غیر منصفانہ نظام ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔

ہمارا معاشرہ عورت کو عزت کا نشان کہتا ہے، لیکن حقیقت میں اُسے اختیار سے محروم کر دیتا ہے۔

جو سردار، وڈیرے یا جرگہ مردوں کو کھلی آزادی دیتے ہیں، وہی عورت کے کسی بھی آزادانہ فیصلے پر قتل کا فتویٰ جاری کر دیتے ہیں۔

کیا یہی عدل ہے؟ کیا صرف عورت کی ذات ہی معاشرتی غیرت کی نمائندہ ہے؟

ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
*غیرت کے نام پر قتل کوئی انفرادی ردِعمل نہیں بلکہ ایک اجتماعی خاموشی کا نتیجہ ہے۔

جب ایک لڑکی کو اس کی پسند کی شادی پر قتل کیا جاتا ہے اور سارا معاشرہ خاموش رہتا ہے، تو اصل مجرم صرف قاتل نہیں، بلکہ وہ سب بھی ہوتے ہیں جو اس ظلم کو جواز دیتے ہیں  وہ علما، وہ والدین، وہ رشتہ دار، اور وہ سماجی شخصیات جو زبان بند رکھتے ہیں۔

ہمیں ایک نئے سماجی بیانیے کی ضرورت ہے  ایک ایسا بیانیہ جو عورت اور مرد دونوں کو برابر کا انسان سمجھے، اور قانون و اخلاقیات کو دوہرے معیاروں سے پاک کرے۔

خوش آئند پہلو یہ ہے کہ بلوچستان میں اب باشعور نوجوان آواز اٹھا رہے ہیں۔ کئی تعلیمی ادارے، صحافی، اور سوشل ورکرز اب یہ سوال کھلے عام کرتے ہیں کہ اگر عورت کی آزادی جرم ہے تو مرد کی بدکاری کیوں معافی کے قابل ہے؟

یہی سوال ہمارے سماج کو ایک نئی راہ دکھا رہا ہے۔

اگر ہم واقعی انصاف چاہتے ہیں، تو ہمیں عورت اور مرد کے لیے برابر کے اصول اپنانے ہوں گے۔ ہمیں ان ظالمانہ روایات کا خاتمہ کرنا ہوگا جو صرف عورت کے لیے سزا مقرر کرتی ہیں اور مرد کو ہر ظلم سے مبرا قرار دیتی ہیں۔

غیرت کا مطلب کسی کی جان لینا نہیں بلکہ کسی کو عزت سے جینے کا حق دینا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post