میر زرک میر
کافرستان کے باسیوں زرک اور شیتل کو بجرم "مہر و محبت قتل کی سزا دیدی گئی ۔
پہلے انہیں فیصلے کے نام پر سرداروں میر اور ٹکریوں کے کہنے پر واپس بلایا گیا اور پھر مہر دشمنوں کے حوالے کردیا گیا اور پھر اس چھوٹی سی ویڈیو کلپ میں سب کچھ دیکھا جاسکتا ہے کہ شیتل تن تنہا کس قدر جرات کیساتھ مردوں کے مسلح غول کو للکار کر کہتی ہے کہ " صرف سُم ئنا اجازت اے نمے " یعنی صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے۔
کس قدر جرات مندانہ جملہ ہے یہ ۔ اف ہزاروں لاکھوں کروڑوں کھوکھلے نعروں پر بھاری ہے یہ جملہ ۔ مردانہ للکار۔
صرف سُم ئنا اجازت اے نمے۔
براہوئی میں کہا گیا شیتل کا یہ جملہ اس سماج کی سمعتیں متعین کریگا
تاریخی جملہ
انقلابی جملہ
مہرکا جملہ
محبت کا جملہ
ایثار کا جملہ
یہ جملہ وہاں غول کی صورت میں موجود مردوں پر " حملہ تھا ، انتہائی شدید حملہ ، ان کی غیرت پر حملہ ۔ اس جملہ نما حملے نے بندوق بردار مردوں کو انہیں تہس نہس کردیا ۔ ان کی غیرت کا جنازہ نکال دیا ۔
یہ جرات شیتل کو کس نے سکھائی ؟
مردوں کے سامنے ،
موت کے سامنے ،
بندوقوں کے سامنے
اس قدر جرات
!!!!اف
کس قدر جرات کا مظاہرہ کیا شیتل نے ۔
یہ جرات شیتل کو کس نے سکھائی ؟ کس مکتب میں ؟
مہر نے سکھائی ۔
مہر مکتب میں
مہر ایک بار ہمراہی کر لے تو پھر کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا ۔ مہر زندہ باد ، محبت زندہ باد ۔ محبت کے شہید زندہ باد ، مہر کے نگہبان زندہ باد ۔
مہر استاد ہے رہنما ہے مہر تو مہر ہے یہ تمہیں متقل گاہ کی طرف بھی سر اٹھا کر چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اپنے لمہ وطن پرچآج جرات کا اعلی نمونہ دیکھا ، سنا ، صرف سُم ئنا اجازت اے نمے (صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ) مہر کرو ، بھر پور کرو کہ یہ زندگی بھی خود کی ڈگر پر جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے بلکہ مرنے کا انداز بھی سکھاتا ہے ۔ آج یہ مہر
نامہ میں ایک۔اور داستان کا اضافہ ہوا ۔
یہ کہہ کر شیتل کس قدر جرات کیساتھ مردوں کے بیچ سے گزر کر اپنے مہر کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی ہے ۔ نہ قدم ڈگمگائے نہ لغزش ، نہ زندگی کی بھیک
ایسی زندگی ، بغیر مہر کی زندگی ، اخ تھو ۔
زرک کے ہاتھ پائوں پہلے سے بندھے ہوئے ہیں اسے کھڑی دھوپ میں پہلے ہی بے دست و پا کر کے پھینکا گیا ہے ۔
اور پھر مہر دشمن ، مہر سے خوفزدہ سماج ان پر فائر کھول دیتا ہے ۔ خوفزدہ ڈرپوک سماج ان کو مارنے کے بعد کس قدر سراسیما ہوئے ۔ درحقیقت ان کے پائوں سے زمین نکل گئی ۔ خوف چاروان طرف عیاں تھا ۔
مردوں کا ، غیرت مندوں کا سماج ڈیہہ گیا ، بہہ گیا اس مہر کے خون میں ۔
لیکن
کہانی ابھی باقی ہے
مہر نے چارسو پھیلنا ہے
جرات کی تعلیم دینی ہے
غیرت کے جاہل ٹھیکیداروں کے قطار کو چھیر کر اپنی موت کا انتخاب خود کرنا ہے ۔
، کچھ زرک اور شیتل پھر سے آئیں گے کچھ اب بھی محو مہر
ہیں کچھ میں مہر کی انگڑائیاں جنم لے رہی ہیں ۔
یہ روشنی پھیلتی جارہی ہے ۔ مزید پھیلے گی اس قدر پھیلے گی کہ مزید کوئی اندھیرہ نہ رہے گا ۔
مہرستان کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں