آج یقین جانیے مجھے اپنے نام کے ساتھ آج تو مکمل بلوچ لکھنے پر شرم محسوس ہورہا ہے، جس کی وجہ ڈغاری میں حالیہ دنوں قتل ہونے والے احسان بلوچ اور اسکی بیوی کی بیہیمانہ درندگی سے قتل ہے ، آج احساس ہوتاہے کہ اکثر ہم شاعری نثر سمیت دیوانوں میں سوفیصد جھوٹ ہی بولتے ہیں کہ ہم بلوچ سیکولر ،مہمان نواز دین دار ،غیرت مند ،باہوٹ کیلے جان دینے والے قوم ہیں ،آج کا واقعہ ان سب کا حقیقت عیاں کر تا ہے کہ ہم نے تمام اقدار روندڈالے ہیں ، یہ باتیں شاید پہلے اچھے لگتے ہونگے کیوں کہ ہم معلومات کے حوالے سے چاردیواریوں تک محدود تھے سوشل میڈیا جدید ٹیکنالوجی ناپید تھے ،ہم غیرت مند ہیں ،لفظ ہم غیرت مند تھے جس کی دستاویز موجود نہیں، مگر سینہ در سینہ آتے ہونگے، مگر آج ہم حقیقی معنوں میں ان سب ذمہداریوں سے مبرا ہیں ،ہر ایک اپنی دکانداری میں لگا ہواہے،تمام شعبہ کے لوگ بنیئے بن کر بیٹھ گئے ہیں ،کوئی سیاست ،کوئی سماجی سوشل ،تعلیم ، مذہب ، آزادی کا ٹھیکہ لیئے ان کے مقدس ناموں پر دکانداری میں مشغول ہے ،تو کسی کو بلوچی روایات سے کوئی سروکار نہیں، جب تک اسکی ذاتی مفاد اس میں شامل نہ ہو انھیں کسی کی درد تکلیف نظر نہیں آتا ۔
ہم اپنے آپ سے پوچھنے کی ہمت کریں کیا ہم آج نہتے دشمن پر بندوق نہیں چلاتے؟،کیا ہم خاتون کو وہ عزت دیتے ہیں جس کے آنے پر کشت خون بند ہوجاتے تھے؟ ،کیا ہم آج امانت میں خیانت نہیں کرتے؟، کیا ہم دوستی کے نام پر دوست کیلے آستین کے سانپ نہیں بن جاتے ہیں؟ کیا ہم چوری نہیں کرتے؟ ایک موٹرسائیکل موبائل کیلے کسی کا لخت جگر نہیں کاٹتے؟ اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں ،ان سوالات کے جواب دینے کے ذمہدار ہم ہر ایک خود ہیں ۔
کہیں انسانیت ہے تو وہ بھکرا ہواہے ، کہیں اجتماع کی شکل میں سر دست سوشل میڈیا کے علاوہ کچھ عملا دستیاب نظر نہیں آتا ۔
ہاں جب تک آپ سے میری مفادات جڑے ہوئے ہیں میں وہاں غیرت مند بھی ہوں ،آزادی، پسند ،اسکالر ،دانشور ،شاعر ،سیاستدان اور عالم فاضل اگر آپ سے کوئی بھی امید نہیں تو آپ قتل ہوجائیں بھوک سے مرجائیں ،تعلیمی اداروں میں آپ کی ننگی تصویریں بنیں کیمرے نصب کرکے آپ کی عریاں تصاویر بنائی جائیں ہماری بلا سے ، مدرسے میں آپ کا بلد کار ہوتا ہے ہونے دو ہمیں سروکار نہیں،نام نہاد غیرت ،مخبری کے نام پر مرتے ہیں مریں ہمیں تحقیق اور ثبوت لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، جیسا ہے ایسے ہونے دو ، اگر آپ انسان بن کر انسانیت دکھاکر ظالم حکمرانوں، سیاستدانوں قبائلی رہنماوں کے بارے لپ کشائی کریں گے تو کوئی حکومتی،فوجی ،قبائلی چمچہ ، کسی تنظیم کی غلطیوں کی نشاندہی کریں نام نہاد آزاد ی کے دعویدار چمچوں کے چمچے آپ پر کوئی بدنام دہبہ لگاکر آپ کو سولی پر لٹکا نے کیلے کوئی بھی برائی کی راہ تلاش کرنا نہیں چھوڑیں گے۔
کوئی اپنی غلطی کی سدھار نہیں کرلے گا ،بلکہ آپ پر وطن سے غداری جوکہ اصل میں خود غدار ہے ، دہشت گردی کا لیبل چسپان کرکے کسی اور ملک کا لیبل لگاکر جان نکال کر مردہ چھوڑ دیں گے ۔
آج احسان اور اسکی بیوی کی قتل بارے ہر ایک اپنی جان چھڑانے کیلے کہتا ملے گا کیا یہ بلوچستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر پہلی یا آخری قتل ہے ،قتل تو ہوئے ہیں ہوتے رہیں گے،پہلے ثناء اللہ زہری ،عبدالرحمان کھیتران ،شفیق مینگل سرفراز بگٹی نے خواتین کو زندانوں میں ڈالا اغوا کئے، کئی کو قتل کروایا کیا ہوا ،زیدی میں ساسولی سردار ،خاران میں نوشیروانی ،قلات سوراب میں کوہی خان مینگل ،وہاں رند لاشار مگسی سردار ،کہیں مری بزدار ،کھیتران ،مینگل محمد حسنی ،ملا مدرسوں میں اساتذہ یونیورسٹی کالجوں میں جیل عقوبت خانے،مکران میں منشیات فروش ، تو برائی کے گھڑہ ہیں ،این جی اوز ،وہاں خواتین کا عزت لٹ نا عام بات ہے ، ۔بس اسکے بعد کسی اور موضوع میں گھس جائیں گے جہاں پیٹ پوجا کا بھر پور سبیل نکلے ۔
بھلے یہ پیٹ پوجا کسی کی خون پسینہ کے راستے سے ہوکر آئے کوئی پرواہ نہیں ہے ۔
ظلم کے تدارک بارےحکومت سے پوچھیں کہےگی کمیٹی بٹھادی گئی ہے ،وکیل سے پوچھو کہئے گا کیس فائل ہے ، اسمبلی والے سیاستدان سے پوچھو کہے گا یہ قبائلی روایات کا حصہ ہے ،کسی آزادی پسند پارٹی تنظیم سے پوچھو کہے گا آزادی سے کم کسی چیز پر ہم بات نہیں کرتے غلط جگہ آئے ہو یہ ہمار ا مسئلہ درد سر نہیں ہے؟ ہم سے صرف آزادی بارے سوال پوچھا جائے وہ بھی ہماری مرضی کا اگر نہیں تو آپ کو بات کرنے کی حق نہیں کیوں کہ کہیں تحریک پر برا اثر نہ پڑے،یہاں تمام شعبہ ہائے کے طبقات سے سوال ہے کہ انسانی حقوق بھی کوئی شئے ہے اس کی پاسداری کا ذمہدار کون ہے؟ کیا نہتے لوگ یا بندوق بردار سول سوسائٹی ،سماجی طبقہ ۔ نام نہاد حکمران لٹرے ،نام نہاد آزادی پسند، بھگوڑے، منشیات فروش، کون ہیں ؟
ہر کوئی قانون کو روندا کیوں جارہاہے ،
ہم کسی حکمران تنظیم ،پارٹی منشیات فروش لٹیرے ،
چندہ مافیا قاتل ،نام نہاد غیرت کی بنائے گئے قانون کی بات نہیں کرتے جو ہر کوئی ڈیڑہ انچ کی مسجد میں بناکر اپنے پیٹ پوجا کیلے بناتے پھرتے ہیں ،بلکہ اس قانون کی بات کر رہے ہیں، جو آپ کے اندر ہے جس کا نام ضمیر ہے وہ کسی کی رعایت نہیں کرتا ،اندر ہی اندر ہر ایک کو کوستا ہے، کہ کیا کر رہے ہو ،اپنے مفادات کیلے کیوں مقدس پیشوں کو بیچ میں گھسیٹ رہے ہو ۔اپنی غیر ذمہداری
کسی دوسری پر ڈال کیوں سماج معاشرے سے بھاگ رہے ہو ،یقینا کچھ دن اپنی تصاویر شائع کروانے کے بعد ہر شعبہ کے کرتادھرتا ،پھر چندہ ،بھتہ ،منشیات ،قتل میں مشغول ہوجائیں گے ،ڈاکٹر ماہ رنگ ،بیبو ،گلزدادی ،سمیت دیگر گمنام خواتین اغیار کے بوٹوں تلے روندی جائیں گی ۔
اسلام آباد میں مقدس ماوں کے لخت جگروں کے تصاویر چھین کر پھاڑے جائیں گے ہر ایک نشئی پولیس افسر ماوں کو چبتی نظروں سے دیکھ کر ان کا ارمان کریں گے ،ان کیلے اسلام آباد کے پارک ممنوعہ سمجھے جائیں گے ،
آپ لوگوں سے سوال ہے کیا آپ کا غیرت قتل خون بہانے کے علاوہ کسی چیز بارے سوچتی ہے ، اس بارے سوچتا ہے جس کا نام انسانیت ہے ؟
انسان کے گھر میں پیدا ہوکر انسان نام پالینا تو سب سے آسان کام ہے ،مگر انسانیت نبھانا سب سے مشکل ہے وہ ذمہداریاں کب اپنی ذمہداری سمجھیں گے ۔
ہم بلوچ بلوچ کا نعرہ تو لگاتے نہیں تھکتے ہیں ، کوئی بلوچ کو چور کہئے تو ہم خون پینے کو اٹھتے ہیں مگر خود چوری کرتے ہیں ،اس سے پہلے اپنی حال ماضی مستقبل پر نذر دوڑائیں ہم کیا کر رہے ہیں ، ہم سب برائیوں کو قابض ریاست پر تھونپ کر بری نہیں ہوسکتے، کہیں ہماری اندر بھی شیطان
بسا ہوتا ہے ۔
شیطان کو اپنے اندر سے نکالیں بلوچی روایات کو عملا اپنے اوپر لاگو کریں ۔ صنفی تضاد سے نکلیں
تو واقعی آپ غیرت مند بلوچ ،بیر گیر ،آزادی پسند ،سیکولر کہلانے لائق ہونگے ۔
ورنہ جاہل ،درندہ ،را ایجنٹ کی سرٹیفکیٹ تو قابض پاکستانی لٹیرے خود ہمارے گلے میں روزانہ لٹکاتے رہتے ہیں ۔
نہ جانے کب تک بہادر بلوچ نہتی ماں بیٹی کی گرجدار غیرت مند آواز کانوں میں گونجتی رہیں گی کہ کنے سم ئٹ خلنگ نا اجازتے نمے ،
کنے دو خلپیرے، یہ باتیں سبق ہیں کہ بے حس لوگ اسے زندہ چھونے کی جرات نہیں کریں اسکی اجازت نہیں دونگی،
یہاں نہ چیخی نہ چلائی موت کی طرف بہادری سے قدم رکھتی گئیں یہ جان کر ماں ( زمین ) کی آنچل اوڑھنے آئی ہوں، یہاں تو قاتلوں بیگانوں وحشی بےحسوں کا بسیرا ہے ۔
یہاں سب خونی رشتے بھائی عزیز اقارب کانٹوں کے مانند ہیں ۔