اس انسانیت سوز واقعہ جو ڈغگاری میں پیش ہوا ، اس ایک وڈیو کے علاوہ کئی ساری وڈیوز بنے گئے جو وہ درد ناک منظر ہے، جس سے انسانیت کانپ جائے، موت کو میلا، جشن تماشا ہجوم کی صورت میں بنایا گیا، تالیاان، سٹیاں اففف اللہ جان ، وہ قرآن پاک کے ساتھ سات قدم چلنا چاہتی تھی( ہفت گام الہیو پدا خلبو ) ساتھ قدم چلنے دو( صرف سم ئنا اجازت اے نمے) صرف گولی مارنے کا اجازت ہے، وہ یہ جملے بہادری سے بولی اسے پتہ تھی مارنے آرہیں ہیں وہ چاہتی بچ سکتی نکل سکتی لیکن نہیں اس نے موت کی تیاری کی قرآن پاک اٹھا کے انتظار کی وہ اسے لینے آئے ہجوم کے ساتھ اس کا بھائی جلال جلالی غیرت کے جلالی جنوں میں انسان ہونا بھول گیا، احسان تو پہلے کسی گھر میں باہوٹ لینے کے بعد بھی ان کے پناہ میں گیا لیکن اسے ان کے حوالہ کیا گیا، اور درد ناک موت دیا گیا، نہ صرف ایک گولی تیس گولیاں یہاں تک آنکھ میں بھی مارا یا کون سا غیرت تھا کے اس کے خون سے جلال نے ہاتھ دھوئے اور سگریٹ انہیں خون سے رنگے ہاتھوں سے پینے لگا یہ انسانیت کی موت ہے اور اس سارے واقعہ کے کئی موبائل فونزز سے وڈیوز ریکارڈ کیے گئے اس سے زیادہ تکلیف دہ ان سوچوں پہ ان رکشوں پہ کیا ہوسکتی ہے، اسلحے گاڑیاں ان سرپرستوں کے فیصلے جہن جہن کا سرپرستی کئی اور سے ہوتا ہے، اور یہ ریاستی اب انصاف ایکشن انکوائری یہ سب بکواس ہے بلوچوں کا قاتل ریاست اس کے ادارے رہنے دیں ان کے ہاتھ بلوچ نسل کے خون سے رنگے ہیں اور یہ ہجوم بھی ذہنی غلامی اور ریاستی جبر سے سیکھ چکے ہیں انسانیت کو کیسے روندا جاتا ہے، بلوچوں کو خود اس سسٹم ایسے نظام کے خلاف بولنا ہوگا کچھ کرنا ہوگا اس کے مخالفت کے علاوہ بھی اس پہ سب کو سوچنا ہوگا، ہم جنگ زدہ بلوچستان کے درد زدہ لوگ ہیں۔