عورت کی لاش پر جشنِ - تحریر: نہال خان بلوچ

 


                                                                          ایک عورت کی لاش پھر زمین پر پڑی ہے۔ چہرے پر خوف، آنکھوں میں سوال، اور سینے پر گولیوں کے نشان۔ اس کے آس پاس کھڑے مردوں کی آنکھوں میں سکون ہے — جیسے کوئی فرض پورا ہو گیا ہو۔ موبائل کیمروں میں اس کی موت قید کی جا رہی ہے، جیسے کسی شکار کی فتح کو محفوظ کیا جا رہا ہو۔


لیکن سوال یہ ہے کہ وہ غیرت کس چیز کی تھی؟ اور اگر وہ غیرت تھی تو وہ انسانیت کہاں تھی؟ وہ رحم، وہ انصاف، وہ شعور، وہ دل — سب کچھ کہاں دفن ہو گیا؟


ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عورت کے جذبات پر، اس کی زندگی پر، اس کے فیصلے پر، حتیٰ کہ اس کے سانس لینے کے حق پر بھی قاضی بن جائے۔ اگر وہ اپنی پسند کا اظہار کرے، محبت کرے، شادی کرنا چاہے، تو یہ "خاندان کی عزت" پر داغ بن جاتا ہے — ایسا داغ جسے صاف کرنے کے لیے اکثر عورت کا خون بہایا جاتا ہے۔


یہ معاشرہ دوغلے پن کی اعلیٰ مثال ہے۔ مرد دس دس عورتوں سے تعلق رکھے، جسمانی تعلقات بنائے، بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرے، فیس بک پر نیم برہنہ لڑکیوں کی تصویروں پر دل کے ایموجی ڈالے، تب یہ "فطرت" کہلاتا ہے۔ لیکن عورت اگر اپنی پسند کا نام لے، تو وہ "بے حیائی" کہلاتی ہے، اس کا کردار مشکوک ہو جاتا ہے، اور اس کا انجام موت ہوتا ہے۔


یہ صرف صنفی امتیاز نہیں — یہ ایک ایسا وحشیانہ نظام ہے جس کی جڑیں فرسودہ رسوم و رواج، جھوٹی غیرت، قبائلی انا اور مذہب کی من پسند تشریح میں پیوست ہیں۔ ایک ایسا نظام جو مرد کو خدا بنا کر پیش کرتا ہے اور عورت کو غلام، بوجھ، یا گناہ کا منبع۔


ہمارے ہاں لڑکی کا پیدا ہونا ہی جرم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد اگر وہ اپنے حق میں کوئی فیصلہ کرے تو گویا وہ زمین پر بغاوت کر چکی ہے۔ ایسے میں "خاندان کی عزت" کا علم لے کر مرد میدان میں آتا ہے — گولی چلاتا ہے، ویڈیو بناتا ہے، اور پھر وہی خاندان اس کی وکالت کرتا ہے کہ اس نے "غیرت کا کام" کیا ہے۔


اور کتنا المناک ہے کہ جس لمحے اسے گولیوں سے چھلنی کیا گیا، اس کے ہاتھ میں قرآن تھا۔ وہ شاید اس کتاب کو اپنی حفاظت کے لیے سینے سے لگا کر کھڑی تھی، مگر یہ معاشرہ وہی قرآن بھی بھول گیا۔ وہی کتاب جو کہتی ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ وہی کتاب جو رحم، عدل، اور ہدایت کی بات کرتی ہے۔ مگر یہاں قرآن کی آیتیں بھی خاموش رہ گئیں، کیونکہ قاتل کے پاس طاقت تھی — اور معاشرے کی تائید۔


یہ غیرت دراصل ایک چالاکی سے ڈھکی ہوئی بزدلی ہے۔ یہ غیرت اس وقت کیوں نہیں جاگتی جب کسی مرد کے ہاتھوں کسی عورت کی عزت پامال ہوتی ہے؟ یہ غیرت اس وقت کہاں چلی جاتی ہے جب باپ، بھائی یا شوہر خود کسی عورت پر ظلم ڈھاتے ہیں؟ یہ غیرت تب کیوں سوئی رہتی ہے جب عورت اپنی مرضی کے بغیر کسی عمر رسیدہ شخص سے بیاہی جاتی ہے؟ کیونکہ اصل میں یہ غیرت نہیں — یہ اختیار کا نشہ ہے۔ یہ طاقت کی وہ گندی بھوک ہے جسے صرف عورت کے جسم، اس کی آواز، اس کے خوابوں کو روند کر ہی سکون آتا ہے۔


یہ سب کچھ صرف جذباتی یا انفرادی سانحات نہیں، بلکہ ایک اجتماعی جرم ہے — ایک ریاستی، مذہبی، عدالتی، اور معاشرتی ناکامی کا اعلان۔ جب قاتل کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے پکڑا نہیں جائے گا، کیونکہ وہ "وارث" ہے — یعنی جس نے قتل کیا وہی مقتول کا باپ، بھائی یا شوہر ہے — تو وہ مزید دلیر ہو جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ قانون کی آڑ میں اس کے لیے جنت کا راستہ بھی بنایا جائے گا، اور معاشرہ اسے ہیرو بھی بنا دے گا۔


اور المیہ یہ ہے کہ میڈیا، مولوی، حکمران، سب اس عورت کو بھول جاتے ہیں۔ اس کا نام مٹا دیا جاتا ہے، اس کی تصویر کو بےحیائی قرار دے کر ہٹا دیا جاتا ہے، اور قاتل کو "غیرت کا سپاہی" بنا کر محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ کوئی احتجاج نہیں، کوئی ماتم نہیں، کوئی سوال نہیں۔


انھی فرسودہ رواجوں، جھوٹے معیاروں، اور مردانگی کی تعریفوں کے درمیان بلوچستان کی وہ عورتیں زندہ مثال ہیں، جو اس ظلم کے خلاف نہ صرف بول رہی ہیں بلکہ سڑکوں پر، قید خانوں میں، اور احتجاجی کیمپوں میں مردوں کے حق کے لیے کھڑی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ان مردوں کی تصویریں ہیں جو لاپتہ ہیں، یا جنہیں ریاستی جبر نے نگل لیا۔ وہ دن رات آواز بلند کر رہی ہیں — ان کے جسم کمزور ہیں، مگر حوصلے فولاد کے۔ اور وہ یہ سب کچھ اس معاشرے کے لیے کر رہی ہیں جو عورت کو جینے کا حق تک دینے کو تیار نہیں۔


اس ظلم کی جڑیں ان رسوم و رواج میں ہیں جو ہمیں ورثے میں ملے اور جنہیں ہم نے چیلنج کرنا چھوڑ دیا۔ وہ رسمیں جو بیٹی کو بوجھ، عورت کو کمزور، اور مرد کو خدا مانتی ہیں۔ وہ رسمیں جن میں جہیز دینا فرض، پسند کی شادی گناہ، اور بیوہ کا دوبارہ نکاح جرم ہے۔ وہ رسمیں جو عورت کو گھر کی چار دیواری تک محدود کر کے اس کی خودی، اس کے شعور، اس کے وجود کو قید کر دیتی ہیں۔


ان رسموں کو توڑنا اب ناگزیر ہے۔ کیونکہ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی، تو ہر روز کسی نئی لڑکی کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کیا جائے گا، ہر روز کسی اور کی محبت کو موت کی سزا دی جائے گی، اور ہم صرف ویڈیوز دیکھ کر آہیں بھر کر آگے بڑھ جائیں گے۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس نظام کو چیلنج کریں۔ ہم ان قاتلانہ روایات کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوں۔ ہم یہ تسلیم کریں کہ عورت ایک مکمل انسان ہے، جسے اپنی مرضی، اپنے حق، اور اپنی زندگی پر مکمل اختیار ہونا چاہیے۔

ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ اگر کوئی غیرت واقعی باقی ہے، تو وہ صرف اس وقت ہے جب ہم ظلم کے خلاف بولیں، چاہے وہ ظلم ہمارے اپنے گھر کے اندر کیوں نہ ہو۔


اور اگر ہم یہ سب نہیں کر سکتے، تو کم از کم اس عورت کی لاش پر خاموش نہ رہیں — جس نے صرف محبت کی تھی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post